واشنگٹن ڈی سی: تبدیلی لوگوں کے اندازے سے زیادہ تیزی کے ساتھ وقوع پذیر ہوتی ہے۔ واشنگٹن میں ایران کے بارے میں سیاسی حقائق میں تیزی سے آنے والی تبدیلی پر بھی یہی کُلیہ لاگو ہوتا ہے۔
اب سے پچاس دن سے بھی کم عرصے میں امریکہ کی قیادت ایک ایسے صدر کے ہاتھ میں ہوگی جس نے تہران کے ساتھ مذاکرات کے وعدے کو اپنی انتخابی مہم کا حصّہ بنایا تھا – اور پھر بھی وہ جیت گیا۔
شاید اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ واشنگٹن کی سب سے طاقتور لابیوں میں شامل ایک گروہ انتخابات کے سال میں امریکی کانگریس کو ایران کی بحری ناکہ بندی کرنے کے حق میں قرار داد منظور کرنے کے لئے قائل کرنے میں ناکام ہوگیا حالانکہ اس قرار داد کی حمایت کرنے والے سینیٹرز کی تعداد 250 سے بھی زیادہ تھی۔
اب واشنگٹن میں بحث کا موضوع یہ نہیں ہے کہ ایران کے ساتھ مذاکرات کئے جائیں یا نہ، بلکہ یہ ہے کہ کیسے ، کب اور کس ترتیب کے ساتھ ہونے چاہئیں۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مذاکرات ضرور ہوں گے یا کامیاب ہوں گے۔ اس کی ایک جزوی وجہ واشنگٹن کے سیاسی منظر نامے کی ایک خاصیت کا تبدیل نہ ہونا ہے اور وہ ہے سخت گیر ہونے کا تاثر دینے اور اپنا پلّہ بھاری رکھنے کے لئے اقتصادی پابندیوں پر انحصار۔
نو منتخب صدر بارک اوبامہ نے اس سال کے اوائل میں امریکہ اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی کو بتایا تھا کہ وہ ایران کے ساتھ مذاکرات کرنے اور اپنی ہی شکست کا باعث بننے والی " پیشگی شرائط" کو ختم کرنے کے وعدے پر قائم ہیں۔ لیکن اب وہ مکالمے کے حق والے مؤقف کو ایران کے خلاف مزید اقتصادی پابندیاں لگانے کی خواہش کے ساتھ متوازن کرنا چاہتے ہیں۔
ایک سینیٹر کے طور پر بارک اوبامہ ایران کے خلاف جامع پابندیوں، احتساب اور ڈائوسٹمنٹ ایکٹ 2008 کے شریک سپانسر تھے۔ اس ایکٹ کا مقصد موجود پابندیوں کو مزید سخت کرنا اور ایران کو مالی طور پر مزید کمزور کرنے کی راہ ہموار کرنا تھا۔ اس وقت اوبامہ نے دلیل دی تھی کہ پابندیاں کسی بھی سفارتی حکمتِ عملی کا لازمی جزو ہوتی ہیں۔ ایک بیان میں انہوں نے کہا تھا " جارحانہ، براہِ راست اور اصولوں پر مبنی سفارتی کوشش کے ساتھ ساتھ ہمیں ایران پر اقتصادی دباؤ بڑھاتے رہنا چاہیے۔" اوبامہ کے بعض مشیر ایک قدم مزید آگے بڑھ گئے اور انہوں نے کہا کہ 'چھڑی اور گاجر' ( ڈراوا اور ترغیب) کی حکمتِ عملی میں چھڑی یعنی پابندیوں کے نفاذ کو پہلے نمبر پر رکھنا چاہیے۔
اوبامہ یقیناً یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ایران کے بارے میں کامیاب اندازِ فکر میں ترغیب اور دباؤ دونوں شامل ہونی چاہئیں۔ اور یہ کہ مفروضے کے اعتبار سے پابندیوں سے امریکہ کا پلڑا مزید بھاری ہو جاتا ہے۔ لیکن اس نہج پر سوچنے میں قباحت یہ ہے کہ اس میں یہ احساس نہیں کیا جاتا کہ موجودہ پابندیوں نے ایران کے مقابلے میں امریکہ کا پلڑا پہلے ہی بہت بھاری کر رکھا ہے۔
لیکن یہ توازن اپنے حق میں ہونے کے فائدے کو صرف مذاکرات کے سیاق و سباق میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ پابندیاں ایران کے ساتھ امریکہ کے مذاکرات میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں اگر واشنگٹن ایران کے رویّے میں قابلِ قدر تبدیلی کے عوض انہیں اٹھانے پر رضامند ہو۔ ابھی تک واشنگٹن میں یہ رضامندی موجود نہیں ہے۔ بُش انتظامیہ فوقیت یا پلّہ بھاری ہونے سے مراد یہ لیتی تھی کہ کچھ دیئے بغیر کچھ حاصل کرلیا جائے۔ لیکن یہ سوچ واضح طور پر ناکام ہوچکی ہے۔ اس میں مذاکرات کہیں نظر نہیں آتے بلکہ الٹی میٹم اور دھمکیاں ہی پائی جاتی ہیں۔
دوسری بات یہ کہ آپ اسی وقت کچھ لے سکتے ہیں جب بدلے میں کچھ دیا جائے گا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ایران کے رویّے میں تبدیلی دھمکیاں یا نئی پابندیاں لگانے سے نہیں بلکہ موجودہ پابندیاں اٹھانے کی پیش کش سے آئے گی۔ یہی وہ نقطہ ہے جہاں امریکہ کی ایران پر فوقیت کا فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔
اس ساری گفتگو کا لُبِ لباب یہ ہے کہ اس فوقیت کو حقیقی شکل میں صرف اسی وقت ڈھالا جاسکتا ہے جب واشنگٹن اور تہران مذاکرات کی میز تک پہنچنے کا راستہ ڈھونڈنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ مذاکرات سے قبل نئی پابندیاں لگانے کی طرف جھکاؤ اوبامہ کے ایجنڈے کے لئے بہت تباہ کُن ہوگا۔ ایران پر نئی پابندیاں چاہے کانگریس لگائے یا صدارتی حکم کے ذریعے لگائی جائیں، ان سے ماحول خراب ہوگا اور سفارت کاری کے امکانات معدوم ہوجائیں گے، دونوں دارالحکومتوں کے درمیان بد اعتمادی بڑھے گی جس کے نتیجے میں سب سے پہلے ایران پر امریکہ کی فوقیت سے فائدہ اٹھانے کی امریکی صلاحیت پر زد پڑے گی۔
یہی بات ایران پر بھی صادق آتی ہے۔ اگر ایران نے مذاکرات سے پہلے اپنا پلّہ بھاری کرنے کے لئے خطّے میں امریکی پالیسیوں کو نقصان پہنچانے کی کوششیں تیز کیں تو اس سے مذاکرات کا انعقاد مشکل ہوجائے گا۔
اپنے جمہوریت نواز ایجنڈے کو کامیاب بنانے کے لئے اوبامہ کو اس غلط فہمی سے پیچھا چھڑانا ہوگا کہ امریکہ کو ایران پر فوقیت حاصل نہیں ہے اور ایرانی پالیسی میں تبدیلی کے عوض موجودہ پابندیاں اٹھانے کی پیش کش کرنے کی قدر و قیمت کو پہچاننا ہوگا۔
انہیں نئی پابندیوں کے نفاذ سے مذاکرات تک جانے والی راہ میں مشکلات پیدا کرنے سے بچنا ہوگا اور اس کے ساتھ ہی ان مقامی حلقوں کی طرف سے ڈالے جانے والے دباؤ کو بھی برداشت کرنا ہوگا جو پابندیاں لگانے کی تحریک دے کر ہمیشہ سے ہی ایران امریکہ تعلقات میں کسی اہم سفارتی پیش رفت کو روکتے رہے ہیں۔
ایران کے حوالے سے امریکی مفادات کو آگے بڑھانے کے لئے ترغیب اور ڈراوے کے وہی پالیسی کامیاب ہوگی جس میں سفارت کاری کو مرکزی جب کہ پابندیوں کو ثانوی حیثیت دی جائے گی۔ اس ترتیب کو اس کے الٹ نہیں ہونا چاہیے۔
www.bitterlemons-international.org
اب سے پچاس دن سے بھی کم عرصے میں امریکہ کی قیادت ایک ایسے صدر کے ہاتھ میں ہوگی جس نے تہران کے ساتھ مذاکرات کے وعدے کو اپنی انتخابی مہم کا حصّہ بنایا تھا – اور پھر بھی وہ جیت گیا۔
شاید اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ واشنگٹن کی سب سے طاقتور لابیوں میں شامل ایک گروہ انتخابات کے سال میں امریکی کانگریس کو ایران کی بحری ناکہ بندی کرنے کے حق میں قرار داد منظور کرنے کے لئے قائل کرنے میں ناکام ہوگیا حالانکہ اس قرار داد کی حمایت کرنے والے سینیٹرز کی تعداد 250 سے بھی زیادہ تھی۔
اب واشنگٹن میں بحث کا موضوع یہ نہیں ہے کہ ایران کے ساتھ مذاکرات کئے جائیں یا نہ، بلکہ یہ ہے کہ کیسے ، کب اور کس ترتیب کے ساتھ ہونے چاہئیں۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مذاکرات ضرور ہوں گے یا کامیاب ہوں گے۔ اس کی ایک جزوی وجہ واشنگٹن کے سیاسی منظر نامے کی ایک خاصیت کا تبدیل نہ ہونا ہے اور وہ ہے سخت گیر ہونے کا تاثر دینے اور اپنا پلّہ بھاری رکھنے کے لئے اقتصادی پابندیوں پر انحصار۔
نو منتخب صدر بارک اوبامہ نے اس سال کے اوائل میں امریکہ اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی کو بتایا تھا کہ وہ ایران کے ساتھ مذاکرات کرنے اور اپنی ہی شکست کا باعث بننے والی " پیشگی شرائط" کو ختم کرنے کے وعدے پر قائم ہیں۔ لیکن اب وہ مکالمے کے حق والے مؤقف کو ایران کے خلاف مزید اقتصادی پابندیاں لگانے کی خواہش کے ساتھ متوازن کرنا چاہتے ہیں۔
ایک سینیٹر کے طور پر بارک اوبامہ ایران کے خلاف جامع پابندیوں، احتساب اور ڈائوسٹمنٹ ایکٹ 2008 کے شریک سپانسر تھے۔ اس ایکٹ کا مقصد موجود پابندیوں کو مزید سخت کرنا اور ایران کو مالی طور پر مزید کمزور کرنے کی راہ ہموار کرنا تھا۔ اس وقت اوبامہ نے دلیل دی تھی کہ پابندیاں کسی بھی سفارتی حکمتِ عملی کا لازمی جزو ہوتی ہیں۔ ایک بیان میں انہوں نے کہا تھا " جارحانہ، براہِ راست اور اصولوں پر مبنی سفارتی کوشش کے ساتھ ساتھ ہمیں ایران پر اقتصادی دباؤ بڑھاتے رہنا چاہیے۔" اوبامہ کے بعض مشیر ایک قدم مزید آگے بڑھ گئے اور انہوں نے کہا کہ 'چھڑی اور گاجر' ( ڈراوا اور ترغیب) کی حکمتِ عملی میں چھڑی یعنی پابندیوں کے نفاذ کو پہلے نمبر پر رکھنا چاہیے۔
اوبامہ یقیناً یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ایران کے بارے میں کامیاب اندازِ فکر میں ترغیب اور دباؤ دونوں شامل ہونی چاہئیں۔ اور یہ کہ مفروضے کے اعتبار سے پابندیوں سے امریکہ کا پلڑا مزید بھاری ہو جاتا ہے۔ لیکن اس نہج پر سوچنے میں قباحت یہ ہے کہ اس میں یہ احساس نہیں کیا جاتا کہ موجودہ پابندیوں نے ایران کے مقابلے میں امریکہ کا پلڑا پہلے ہی بہت بھاری کر رکھا ہے۔
لیکن یہ توازن اپنے حق میں ہونے کے فائدے کو صرف مذاکرات کے سیاق و سباق میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ پابندیاں ایران کے ساتھ امریکہ کے مذاکرات میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں اگر واشنگٹن ایران کے رویّے میں قابلِ قدر تبدیلی کے عوض انہیں اٹھانے پر رضامند ہو۔ ابھی تک واشنگٹن میں یہ رضامندی موجود نہیں ہے۔ بُش انتظامیہ فوقیت یا پلّہ بھاری ہونے سے مراد یہ لیتی تھی کہ کچھ دیئے بغیر کچھ حاصل کرلیا جائے۔ لیکن یہ سوچ واضح طور پر ناکام ہوچکی ہے۔ اس میں مذاکرات کہیں نظر نہیں آتے بلکہ الٹی میٹم اور دھمکیاں ہی پائی جاتی ہیں۔
دوسری بات یہ کہ آپ اسی وقت کچھ لے سکتے ہیں جب بدلے میں کچھ دیا جائے گا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ایران کے رویّے میں تبدیلی دھمکیاں یا نئی پابندیاں لگانے سے نہیں بلکہ موجودہ پابندیاں اٹھانے کی پیش کش سے آئے گی۔ یہی وہ نقطہ ہے جہاں امریکہ کی ایران پر فوقیت کا فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔
اس ساری گفتگو کا لُبِ لباب یہ ہے کہ اس فوقیت کو حقیقی شکل میں صرف اسی وقت ڈھالا جاسکتا ہے جب واشنگٹن اور تہران مذاکرات کی میز تک پہنچنے کا راستہ ڈھونڈنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ مذاکرات سے قبل نئی پابندیاں لگانے کی طرف جھکاؤ اوبامہ کے ایجنڈے کے لئے بہت تباہ کُن ہوگا۔ ایران پر نئی پابندیاں چاہے کانگریس لگائے یا صدارتی حکم کے ذریعے لگائی جائیں، ان سے ماحول خراب ہوگا اور سفارت کاری کے امکانات معدوم ہوجائیں گے، دونوں دارالحکومتوں کے درمیان بد اعتمادی بڑھے گی جس کے نتیجے میں سب سے پہلے ایران پر امریکہ کی فوقیت سے فائدہ اٹھانے کی امریکی صلاحیت پر زد پڑے گی۔
یہی بات ایران پر بھی صادق آتی ہے۔ اگر ایران نے مذاکرات سے پہلے اپنا پلّہ بھاری کرنے کے لئے خطّے میں امریکی پالیسیوں کو نقصان پہنچانے کی کوششیں تیز کیں تو اس سے مذاکرات کا انعقاد مشکل ہوجائے گا۔
اپنے جمہوریت نواز ایجنڈے کو کامیاب بنانے کے لئے اوبامہ کو اس غلط فہمی سے پیچھا چھڑانا ہوگا کہ امریکہ کو ایران پر فوقیت حاصل نہیں ہے اور ایرانی پالیسی میں تبدیلی کے عوض موجودہ پابندیاں اٹھانے کی پیش کش کرنے کی قدر و قیمت کو پہچاننا ہوگا۔
انہیں نئی پابندیوں کے نفاذ سے مذاکرات تک جانے والی راہ میں مشکلات پیدا کرنے سے بچنا ہوگا اور اس کے ساتھ ہی ان مقامی حلقوں کی طرف سے ڈالے جانے والے دباؤ کو بھی برداشت کرنا ہوگا جو پابندیاں لگانے کی تحریک دے کر ہمیشہ سے ہی ایران امریکہ تعلقات میں کسی اہم سفارتی پیش رفت کو روکتے رہے ہیں۔
ایران کے حوالے سے امریکی مفادات کو آگے بڑھانے کے لئے ترغیب اور ڈراوے کے وہی پالیسی کامیاب ہوگی جس میں سفارت کاری کو مرکزی جب کہ پابندیوں کو ثانوی حیثیت دی جائے گی۔ اس ترتیب کو اس کے الٹ نہیں ہونا چاہیے۔
www.bitterlemons-international.org